دوستی کیا ہوتی ہے : پنجابی لوککہانی


بیٹے نے جوان ہوتے ہی پر پرزے نکالنے شروع کردیے۔ اوباش اور آوارہ لوگوں کی صحبت میں‌بیٹھنے لگا۔ جوچیز ہاتھ لگتی دوستوں کو کھلا دیتا۔ بوڑھے باپ نے جب ایک دوبار سمجھانے کی کوشش کی تو کہنے لگا، بابا آپ بلاوجہ میرے دوستوں کی مخالفت کرتے ہیں،جیسےمیرے دوست ہیں‌ایسے تو دنیا میں کسی کے ہو ہی نہیں‌سکتے۔ میرے پسینے کی جگہ خون بہانے کو تیار رہتے ہیں۔
بوڑھے باپ نے کہا ، بیٹے ایک دن پچھتاؤ گے اور پھر کہو گے کہ باپ ٹھیک ہی کہتا تھا۔ بیٹے پر جوانی کا بھوت سوار تھا اور آوارہ دوستوں کی صحبت نے اس کے کان بند کردیے تھے۔ بالاخر اس نے گھر کی ہر چیز ٹھکانے لگا دی۔ جب لڈو ختم ہوئے تو اس کے یاروں نے بھی منہ چرانا شروع کردیا اور ایک ایک کرکے کھسک گئے۔ نوجوان کی یہ حالت ہوئی کہ اس کا دوستی کے رشتے سے ہی ایمان اٹھ گیا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اب دوستی کے رشتے کو کوستا۔ باپ نے ایک دن اسے کہا، چل میرے ساتھ ، وہ باپ کے ساتھ چل پڑا۔ رات گئے وہ ایک گاؤں میں پہنچے۔ باپ نے کہا یہ میرے دوست کا گھر ہے تمھیں‌پتا چل جائے گا کہ دوست کیا ہوتے ہیں۔ باپ نے دستک دی، اندر سے کھسر پھسر کی آواز سنائی دی، پھر پوچھا گیا کون ہے؟

نوجوان کے بوڑھے باپ نے اپنا نام بتایا۔ مگر دروازہ نہ کھلا جب کافی دیر ہو گئی تو بیٹے نے کہا یہ ہے آپ کا دوست جس پر آپ کو بڑا ناز تھا۔۔۔ابھی تک دروازہ نہیں‌کھولا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور گھر کا مالک باہر نکلا، اس نے بوڑھے کو سینے سے لگایا، نوجوان کے سر پر پیار کیا اور بولا ۔۔۔ معاف کرنا دیر ہو گئی تم برسوں کے بعد آئے تھے سوچا ۔۔۔۔کوئی کام ہو گا اگر کسی سے بدلہ لینا ہے تو میری تلوار تیار ہے حکم کرو، ساتھ چلتا ہوں، روپے کی ضرورت ہے تو میں نے جو پیسے دبا رکھے تھے سب نکال کر رکھ دیے ہیں لے لو۔ اور اگر بیٹے کے لیے رشتہ درکار ہے تو بیٹی دلہن کی طرح سجی 

.(بیٹھی ہے، نکاح پڑھواؤ اور اسے لے جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(پنجاب کی ایک لوک کہانی


0 comments:

Post a Comment